FEAR OF CORONA VIRUS
URDU ARTICLE
![]() |
URDU ARTICLES |
تاریخ : 15 جون 2020
کورونا کا خوف
کورونا کا خوف
سب سے اہم بات سمجھنے والی یہ ہے، کہ ہمیں کورونا کا خوف کیوں ہیں؟ کیونکہ میڈیا نے ہمیں ڈرا دیا ہیں، اس لیے ہم ڈرے ہوئے ہیں؟ یا سب ڈرے ہوئے ہیں، اس لیے ہم ڈرے ہوئے ہیں؟ یا کوئی وجہ ہے ہمارے ڈرنے کے پیچھے؟
کورونا کی معلومات
بنیادی طور پر کورونا پر جو معلومات ہے ہمارے پاس جس بنا پر ہم جو سوچ رہے ہیں، وہ معلومات صیح معلومات نہیں ہیں۔ وہ مکمل معلومات نہیں ہیں بلکہ وہ نا مکمل معلومات ہیں،اس وجہ سے ہم ڈرے ہوئے ہیں۔ اگر ایک بار واضح طور پر معلومات ہمارے پاس آجائے، ہمیں واضح طور پر سمجھ میں آجائے کہ ہو کیا رہا ہے تو ہوسکتا ہے ہمارا جو ڈر ہے وہ کم ہوجائے یا پھربلکل ہی ختم ہی ہوجائے۔
موجودہ صورت حال
پاکستان میں قریب قریب 139،230 کیسز ہوچکے ہیں، قریب قریب 2،632 اموات ہوچکی ہیں، اور 868،565 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔ یہ سب سے ضروری ہے سمجھنا ہم کو کہ ٹیسٹ کا کیا کردارہے، جو بھی ہمارا ڈر ہے اس سے اس کا کیا تعلق ہے۔ تو ابھی میں کسی سے بھی پوچھوں گا کہ آپ کیوں ڈرے ہوئے ہوں، تو وہ شخص کہے گا کہ اس میں شرح اموات بہت زیادہ ہیں۔ میں اگرکہوں گا کتنی زیادہ ہیں؟ تو وہ شخص کہے گا 139،230 میں سے 2،632 کی اموات ہوچکی ہیں۔ تو کتنا ہوگیا شرح اموات قریب قریب 1.890٪ ہوگیا۔ مطلب کے 100 لوگوں کو ہوتا ہیں اوراس میں سے 1 کی زندگی ختم ہوجاتی ہیں۔
کیا یہ سچ ہے؟
پہلے یہ سمجھنے کی کوشیش کرتے ہے کہ یہ 1.890٪ ہی ہیں؟ یا کتنا پرسینٹیج ہے؟ ٹییسٹ ابھی تک 868،565 ہوئے ہیں اگر کسی کو دیکھنا ہوں کے کتنے ٹیسٹ ہوئے ہیں؟ یا کتنی شرح اموات ہے پوری دنیا میں تو ایک ویب سائٹ ہے:
https://www.worldometers.info/coronavirus
وہاں پر آپ جاں کر دیکھ سکتے ہوں کے روزانہ کی بنیاد پر کتنے ٹیسٹ بڑھ رہے ہیں، کس کس ملک میں کتنے کتنے ٹیسٹ ہورہے ہیں سب آجائے گا اس کے اندر۔
ٹیسٹ سمجھنا ضروری کیوں ہے؟
کیا پاکستان کی آبادی 868،565 ہیں؟ نہیں ہیں پاکستان کی آبادی 220،661،983 ہیں۔ اس میں سے ٹیسٹ کتنے ہوئے ہیں؟ 868،565 ہوئے ہیں۔ جو 1٪ بھی نہیں ہیں۔ ایک پرسینٹ بھی دیکھے تو 2،206،620 ہوتا ہیں۔ تو 868،565 ٹیسٹ ہوئے اور اس میں سے کیسز کتنے پتہ لگے؟قریب قریب 139،230 کیسز پتہ لگیں۔ یہ بلکل ایسا ہے جیسے میں آپ سے پوچھتا ہوں کے کراچی میں روڈ کے اوپر کتنے حادثات ہوتے ہیں؟ تو آپ کیا کہوں گے کہ بھائی مجھے نہیں معلوم تو میں کہوں گا کہ چلوں معلوم کریں کے کتنے حادثات ہوتے ہیں۔ تو ہم نے حادثات کی شرح کو معلوم کرنے کے لیے دس الگ الگ جگہوں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگا دیئے ،اور ان سی سی ٹی وی کیمروں کے زریعے ویڈیوں بنانا شروع کردیں کہ ان دس الگ الگ جگہوں پر کتنے حادثات ہورہے ہیں؟ تو اس کے بعد میں نے آپ سے ایک مہینے بعد پوچھاں کے کراچی میں کتنے حادثات ہورہے ہیں؟ تو آپ کہتے ہوں کے روزانہ کے معمول پر دس حادثات ہوتے ہیں۔ تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ تو آپ کہے گے کہ دس جگہوں پر ہمارے کیمرے لگے ہوئے ہیں، ان کے زریعے ہمیں یہ معلوم ہوا۔ تو میں آپ سے پھر یہ پوچھتاں ہوں کے دس ہی جگہ ہے جہاں پر حادثات ہورہے کیا باقی جگہوں پر حادثات نہیں ہوسکتے؟ اگر ہمیں واقعی معلوم کرنا ہے کے حادثات کی شرح کیا ہے تو ہمیں پورے کراچی کی سڑکوں پر کیمرے نصب کرنے ہونگے تا کہ معلوم کر سکےکہ حادثات کی شرح کیا ہیں۔ تو یہ سارا حساب کتاب ہی غلط ہوگیا۔ اس لیے اس میں ٹیسٹینگ کا بڑا کردار ہیں۔
میڈیا اور خبریں
میڈیا اور نیوز چینلز میں بار بار یہ دیکھایاں جارہاں ہیں کہ پانچ ہزار کیسز بڑھ گئے، دس ہزار کیسز کا اور اضافہ ہوگیا ہیں مگر کوئی یہ نہیں دکھا رہا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ بھی بڑھ رہے ہیں۔
اموات کی شرح
"اصل شرح اموات کیا ہیں" اس کا حساب کتاب لگانا بہت ضروری ہے۔ اسی سے پھر ہم فیصلا کر سکے گے کہ ہمیں ڈرنا چاہیئے یا نہیں ڈرنا چاہیئے۔
کسی بھی بیماری سے ہم کو ڈرنا چاہیئے یا نہیں ڈرنا چاہیئے اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ اس کا علاج ہے کہ نہیں ہے، کیوں کہ علاج تو ابھی تک سردی زکام کا بھی نہیں ہیں۔ سردی زکام کی بھی کوئی ویکسین نہیں ہے۔ کیا ہم سردی زکام سے ڈرتے ہیں؟ نہیں ڈرتے ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگ نہیں مرتے ہیں۔ تو اب ہم بلکل صیح شرح اموات کا حساب کتاب لگاتے ہے کہ کتنا ہے۔
کتنے ٹیسٹ ہوئے؟ 868،565 ٹیسٹ ہوئے، اور اس میں سے 139،230 لوگوں کو ہوا تو اوسط کتنی آئی 16.03٪ اگر 70،000،000 کا ٹیسٹ کیا جاتا تو کتنے کیسز سامنے آتے 11،221،000 کیسز سامنے آتے۔ اور اگر 700،000،000 کا ٹیسٹ کیا جاتا تو 112،210،000 کیسز سامنے آتے۔ ٹوٹل اگر ہم ٹیسٹ کر لییتے 220،661،983 کا تو کتنے ٹیسٹ نکل کر آتے 35،372،116 کا فگر ہمارے سامنے آتا۔ اس کا مطلب 35،372،116 کو آج کی تاریخ میں ہیں یا ہوچکا ہیں۔ کورونا میں ایسا نہیں ہے کہ جس کوبھی ہوتا ہےاس کو تمام طرح کی علامت نظر آنا شروع ہوجاتی ہے 80٪ سے زیادہ جو کیسز ہوتے ہیں ان میں کوئی علامت نظر نہیں آتی ہیں۔ یعنی اگر مجھے ہوگیا ہے اور میں ٹھیک بھی ہوگیا ہوں تو مجھے پتہ تک نہیں ہے۔ اگر معلوم کرنا ہوں تو میں ٹیسٹ کرواؤں گا اس ٹیسٹ کو اینٹی بوڈی ٹیسٹ بولتے ہے اور میرے جسم میں اینٹی بوڈی ملے گی۔ تو میں کہہ سکوں گا کہ میرے جسم میں تھا اب وہ ٹھیک ہوگیا ہے۔ اب اگر ہم بنیادی طور پر حساب کتاب لگآئے تو 35،372،116 کا نمبر نکل کر آرہاں ہے۔ اور اس میں سے اموات کتنی ہوئی ہیں؟ 35،372،116 میں سے 2،632 کی اموات ہوئی ہیں۔ پہلے تو اس حساب کتاب کو ہم نے ٹھیک کرنا ہے۔ اموات کو آنڈرپورٹ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے بلکہ اوور رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے جسم کا ٹیسٹ ہوا اور آپ کے جسم میں ملا کورونا وائرس لیکن آپ کے جسم میں پہلے ہی کئی ساری پرابلم چل ہی رہی تھی تب بھی آپ کی کسی نہ کسی وجہ سے موت ہونے ہی والی تھی تو کورونا آیا آپ کے جسم میں تو اس وجہ سے آپ کی موت واقع ہو گئی۔ 2،632 اموات کا نمبر اس سے کم تو ہوسکتا ہیں، مگراس سے بڑھ نہیں سکتا ہیں۔ اموات کا اس سے زیادہ ہونے کے امکانات بہت کم ہے۔ مان لیتے ہے کہ اتنا ہی نمبر ہے نہ کم ہے نہ زیادہ ہیں۔ تو کتنی پرسینٹیج نکل کر کے آئی؟ 35،372،116 میں سے اگر 2،632 اموات ہوئی ہے تو کتنی پرسینٹیج بنی 0.01٪ یہ اس سے بہت کم ہے جتنی اموات روڈ کے حادثات میں ہوتی ہیں۔ ہر سال کی اگر کلکولیشن دیکھے تو
https://www.facebook.com/dawndotcom/posts/10156900680130442:0
سڑک حادثات کی وجہ سے صرف کراچی میں 30،000 لوگوں کی ہر سال موت ہوجاتی ہیں،
سڑک پر مضحکہ خیز چیزیں
کمال کی بات تو یہ ہے کہ لوگ موٹرسائیکل چلاتے ہوئے چہرے پر ماسک تو پہناں کرتے ہیں، مگر ہیلمیٹ نہیں پہناں کرتے ہیں۔ آپ بھی نوٹ کیجِیئے گا۔ ہیلمٹ بہت کم لوگوں نے پہنے ہوئے ہیں۔ اس سے ہم کو کیا سمجھ میں آرہاں ہیں کہ یہ سمجھ داری ہیں یا بے وقوفی ہے کیونکہ ہیلمٹ نہ لگانے کی وجہ سے مرنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں کئی گنا زیادہ ہیں، جتنا کہ کورونا سے مرنے کہ ان کے امکانات ہے۔
خوف جو چاروں طرف ہیں
تو یہ جو خوف ہے جو چاروں طرف پھیل رہا ہے۔ اور میڈیا ڈر کو اور بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ کیوں کے صیح معلومات کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہ جو ہم ابھی کر رہے ہیں اس کو ریاضی ماڈلنگ کہتے ہیں۔ یعنی ایک ڈیٹا کو دیکھ کرکے ایک ماڈلنگ کرلی جائے اور سمجھا جائے کے اصل میں جو صیح ڈیٹا ہے وہ کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ بلکل بھی نہیں ہے کہ محدود اعداد و شمار کی بنیاد پر ہم کوئی بھی نتیجہ اخذ کرلے اور پھر اس کی بنیاد پر ہم ڈرتے رہیں ۔
ہم سب ڈر کیوں رہے ہیں
جب کہ اس کورونا کا شرح اموات 0.01٪ ہے ۔ تو ہم سب ڈرکیوں رہے ہیں؟ کیا کچھ اور ہے جس سے ہم کو ڈرنا چاہیے مگر ہم ڈر نہیں رہے ہیں۔ جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کررہا ہے جو کورونا سے لاکھ گنا زیادہ خوف زدہ کرنے والی بات ہے۔ وہ کیا ہے جس سے ہم کو ڈرنا چاہیے وہ ہے
بے روزگاری ابھی کچھ مضامین میں نے دیکھیں اس ویب سائٹ پر https://tribune.com.pk/story/2189904/2-coronavirus-forecast-render-18-5m-jobless/
مجھے زیادہ یقین نہیں ہے کہ یہ فگر کتنی صیح ہے کتنی صیح نہیں ہے لکھاں ہے کہ 1.8 ملین بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اس فگر سے ہم کو ڈرنا چاہیے 1.8 ملین لوگ بے روزگار ہوئے کا مطلب ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟
معاشی نقطہ نظر
معاشی نقطہ نظر سے اگر دیکھے گے تو یہ 1.8 ملین لوگ ہیں یہ اپنے خرچے بہت ہی محدود کردینگے۔ جس بندے کی نوکری چلے گئ ہیں کیا وہ جاکر کے مارکیٹ میں نئے کپرے خریدے گا، کیا اپنے بچوں کے لیئے کھلونے خریدے گا، سفر اور سیاحت تو بھول ہی جاؤں۔ ایسی اور ہزاروں صنعتوں میں مطالبہ کم ہوجائے گا، مجموعی معیشت کی طلب کم ہوجائےگی۔
تو کیا کرنا ہوگا ان کمپنیوں کو؟ کیا کرنا ہوگا ان صنعت کاروں کو؟ اپنی سپلائی
کو بند کرنا پرے گا۔ جتنی انٰہوں نے سپلائی کم کری بے روزگاری بڑھتی چلی گئی۔ آج 1.8 ملین کا نمبر ہے وہ بڑھ کر کے کتنا ہوگیا 2.8 ملین یعنی یہ پورا کا پورا لوپ بن جائے گا۔ لوپ کساد بازاری کو کہتے ہیں۔ پہلے ہی عالمی طور پر کساد بازاری آچکا ہے۔ اور اگر یہ کساد بازاری اور گہری ہوتی چلی جائے اس کوذہنی دباؤ کہتے ہے۔ جہاں سے ایک معیشت کو نکلنے میں پانچ سے دس سال لگے گیں۔ تو معیشت کا پہلے ہی بہت بڑا حال تھا، اب اس کورونا کی وجہ سے اور بڑا حال ہوگیا ہے رہاں سہاں ہمارا ڈر وہ صورتحال کو اور خراب کرتا چلا جارہا ہے۔ اس ڈر کو ہر کوئی بڑھا رہا ہے کوئی بھی کم کرنے کا کام نہیں کر رہا ہے۔
میرا اسٹینڈ پوائنٹ
کیوںکہ شرح اموات بہت کم ہے، تو ہم ڈر کیوں رہے ہیں؟ سونچیں بس اس لیئے کہ موت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہمارا یہ ہی مقصد ہے کہ موت نہیں ہونی چاہیے تو پھر تو لاک ڈاؤن مستقل ہوجانا چاہیے، سڑکوں پر نکلنا ہی نہیں چاہیے۔ کیونکہ سیدھی سیدھی تیس ہزار اموات ہونے سے محفوظ ہوجائے گی۔ ہم ان کی زندگیاں محفوظ کرسکتے ہیں۔ آپ کو میرا خیال کیسا لگا؟
بچپن کی کہانی
ایک کہانی میں نے سنی تھی اپنے بچپن میں کہ ایک آدمی کے گھر ایک چوہا آجاتا ہے۔ وہ آدمی اس کو پکڑنے کی بڑی کوشیش کرتا ہے مگر وہ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ آخر میں وہ اپنے گھر کو ہی آگ لگا دیتا ہے چوہا تو کہی سے بھاگ جاتا ہے مگر گھر جل جاتا ہے۔ یہی حالت ہے اس کورونا کی اپنے ڈر کو ہم کو ختم کرنا ہوگا تب جا کر کے اس مسئلے کا اصل میں حل نکلے گا جواصلی مسئلہ ہے۔
اصل مسئلہ کورونا نہیں ہمارے ملک پاکستان کی معیشت ہے
اصل مسئلہ کورونا نہیں اصل مسئلہ ہماری معیشت ہے، اصل مسئلہ بےروزگاری ہے۔ اس آڑٹیکل کے زریعے میں ایک عاجزانہ گزارش کرنا چاہوں گا حکومت پاکستان یا جو بھی اس خصوصی پوزیشن پر ہوں ان لوگوں کو کہ ٹیسٹ کرنا کم کرنے ہیں اور ٹیسٹ بڑھانے نہیں ہیں۔ ابھی ہم ایک گلتی کر رہے ہیں ٹیسٹ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے کورونا کیسز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ تو اس سے ڈر اور خوٖف بھی برھتا چلاجارہاہے۔
حکومتی معیار
کیا گورنمنٹ ایک معیار نہیں بنا سکتی کہ جو اہم کیسز ہیں بس انہی کا ٹیسٹ کریں کیونکہ ہسپتال میں انہی ہی لوگوں کو داخل کرنے کی ضرورت ہیں۔ تو انہی ہی کا ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ جو ایسے ہی ٹھیک ہورہے ہیں، جو اپنے آپ ہی ٹھیک ہورہے ہیں، جن کو معمولی علامات ظاہر ہوئی ہے وہ اپنے آپ ہی ٹھیک ہو رہے ہیں۔ ان کا ٹیسٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے تو خوف وہراس اور بڑھے گا۔ ٹیسٹ اگر کر بھی دیا تو ہم کرنے کیا والے ہیں! ان کو کیا ہسپتال میں داخل کرنے والے ہیں۔ (نہیں) گھر پر قرنطینہ کرنے والے ہیں۔
قرنطینہ کا فنڈا
جب ملک چھوٹا ہوتو تب تو کام کرتا ہیں، مگر جب آبادی کروڑوں میں ہوتو کام نہیں کرتا ہے۔
مثال کے طور پر
آپ یہ تصور کریں کہ ایسی صورت حال ہے کہ ہم ایک گھر میں ہیں، اور چاروں طرف سے سیلاب آگیا ہیں، اور یہ جو گھر ہے اس کے ہزاروں دروازیں ہیں۔ تواب ہم کیا کررہے ہیں! ہزاروں دروازوں میں سے ایک دروازے کو پکڑ کر لیا ہے، اور اسی ایک دروازے کو مضبوط کرتے چلے جا رہے ہیں۔" یہ ہے قرنطینہ"۔ باقی کے ہزاروں دروازیں کھلے پرے ہیں اور ایک دروازے کو ہم مضبوط کرتے چلے جارہے ہیں، یہ سوچ کر کے کہ اس میں سے پانی اندر نہیں آئےگا۔
پاکستان کی آبادی
پاکستان کی کل آبادی 220،661،983 ہیں اور ٹیسٹ کتنے ہوئے ہیں 868،565 روزانہ کے کتنے ہو رہے ہیں 10،568 مہینے کے کتنے ہو رہے ہیں 317،040 سال کے کتنے ہوئے 3،804،480 تو یعنی کہ ہم کو سب کا ٹیسٹ کرنا ہوتو کتنے سال لگے گے 58 سال لگے گے۔ تو ہم کو کیا نظر آرہا ہے صاف صاف کہ ہم سب کا ٹیسٹ کر ہی نہیں سکتے تو ہم ٹیسٹ برھاتے کیوں چلے جارہے ہیں۔
220،661،983 عوام کا ٹیسٹ
سب کا ٹیسٹ کرو سب میں سے سب کو دیکھ کر کے سب کو قرنطینہ کر دو یہ بلکل ایسا ہے جو گھر کی مثال میں نے اوپر دی ہے۔ یا تو ہر طرف سے ملک کو محفوظ کرو۔ اگر ہزار دروازے ہیں، تو ان میں سے ایک کو بند مت کرو سارے بند کردوں تب آپ کہہ سکوں گے کہ پانی اندر نہیں آئے گا۔ ہم نے 868،565 کا ٹیسٹ کر لیا ہیں جس میں سے 139،230 کیسز نکل کر آئے ہیں اور ہم نے 139،230 کو قرنطینہ کردیا ہیں اب یہ آگے نہیں پھیلے گا 139،230 سے 139،231 نہیں ہوگا۔ فرض کرے کہ ان کو ہم قرنطینہ کر بھی دے تو باقی کروڑ لوگ باہر گھوم ہی رہے ہیں۔ تو اس سے ہوگا کیا!
تو اب ہم کو سمجھ جانا ہیں کہ اس کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہیں۔
عملی حل
عملی حل یہ ہے کہ ہمیں معلومات چاہیے کہ حکومت کی طرف سے ابھی کتنے ہسپتال کے مقبوضہ بستررہیں اور کتنے بستر کا انتظام کر رکھا ہیں اور کتنے آپ انتظام کر سکتے ہوں۔ یہ بستر چاہے ہسپتال میں ہوں یا چاہے کسی ہوٹل میں ہوں۔ اور یہ معلومات جاننے کی ضرورت ہے کہ اتنا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہیں۔ جتنا آپ لوگ ڈر رہے ہوں۔
احتیاطی تدابیر
احتیاطی تدابیر ضرور لیں، حفاظتی اقدامات ضرور کریں، معاشرتی فاصلے کو ضرور برقرار رکھے۔ لیکن اتنا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہیں جتنا آپ لوگ ڈر گئے ہیں۔ کیونکہ شرح اموات بہت کم ہیں۔ یہ معلومات لوگوں تک اب جانی چاہیے۔ اب وقت آچکا ہے۔ اگر یہ معلومات آگے نہیں گئی تو مسئلے کا حل نہیں ہونے والا، معیشت کی سطح پر اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ اصلیت کو پہلے ہم کو سمجھناں ہوگا۔
میڈیا کی زمداری
میڈیا میں کیا نظر آنا چاہیے کہ یہ کورونا کا مسئلہ حل ہورہا ہیں۔ تو لوگوں کا اندر سے ڈر نکلنا شروع ہوجائے گا۔ اور ڈر نکلنا چاہیے۔
نتیجہ اخذ کریں
ابھی تک جو بھی میں نے اپنے اس مضمون میں لکھا اگر اس کا میں خلاصہ کروں تو عملی نقطہ نظر میں حل کو تلاش کرنا ہیں۔ ٹیسٹ ہم کو کم کرنے ہیں بڑھانے نہیں ہیں۔ کیوں کے پورا کرتے کرتے 58 سال لگیں گے۔ اگر آپ نے رفتار بڑھا کر ڈبل بھی کر دی تو 29 سال لگیں گے 29 سال تک یہ بیماری کہاں ہوگی کسی کو یاد تک نہیں ہوگا۔
حکومت تھورا سمجھداری سے چلے ٹیسٹ کو آہستہ آہستہ کم کرتی چلی جائے یعنی 10 سے 7 کردو پھر کچھ دن بعد 4 کردو اس کی وجہ سے میڈیا میں کیسز نظر آنا کم ہوجائے گیں۔
میڈیا پر خوف و ہراس کم پھیلے گا۔ لوگ آہستہ آہستہ باہر نکلنا شروع ہوں گے۔ جو ابھی وقت کی ضرورت ہے۔ آہستہ آہستہ طلب بڑھیں گی آہستہ آہستہ اعتماد بحال ہوگا۔ آہستہ آہستہ جو لوگ گاؤں چلے گئے ہیں وہ واپس آئے گیں اصل میں کام ہونا شروع ہوگا۔ صرف کاغذ پر نہیں اصل میں لوگوں کا کام شروع ہوگا۔
تحریر
حسنین منیار
مضمون کا تصور
سندیپ مہیشوری ہندوستانی فوٹو گرافر
1 Comments
Thanks bro
ReplyDelete